الجزیرہ نیوز

ہر نظریہ ہر خبر الجزیرہ نیوز عوام سے ایوان تک آپکی ہر آواز کا ضامن الجزیرہ نیوز

Advertisement

تحریر نعیم الحسن نعیم وہ جو نہ جھکا نہ بکا ضمیر ملت سردار خالد ابراہیم مرحوم

وہ جو نہ جھکا نہ بکا ضمیر ملت سردار خالد ابراہیم مرحوم

تحریر نعیم الحسن نعیم

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں

توہین عدالت اس عدالت کی ہوتی ہے جو میرٹ پہ بنائی جائے..پندرہ ہزار روپے تنخواہ لینے والے سپاہی کیساتھ جیل جانا پسند کروں گا لیکن ان ججوں کے سامنے پیش نہیں ہونگا جنہیں آئینی اورقانونی طور پر مجھےطلب کرنے کا اختیار نہیں۔آہ مرد مجاہد ریاست جموں وکشمیر کی ایک توانا آواز ہمیشہ میرٹ کی بات کرنے والے اصولوں کی سیاست کے سرخیل سیاسی کارکنوں کی آن بان شان آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کے لیے مشعل راہ نظریاتی سیاست کے علمبردار ضمیر کشمیر قائد جموں وکشمیر پیپلز پارٹی سردار خالد ابراہیم خان مرحوم کی آج ساتویں برسی منائی جا رہی ہے.

وہ بچھڑا تو پھر کبھی صبح نہ ہوئی

رات ہی ہوتی گئی ہر رات کے بعد۔

سردار خالد ابراہیم مرحوم نڈر بے باک انتہائی شفیق و حلیم طبع انسان تھے ایسے کردار صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں مرحوم کی خوبیوں میں ایک خوبی کہ وہ کبھی کسے بچے سے بھی بیٹھ کر ہاتھ نہ ملاتے بلکہ اپنی نشت سے کھڑے ہو کر پر تپاک انداز سے ملنا ان کا شیوہ تھا اصولوں کے دلدادہ سچائی اور وعدے کی پاسداری کے دھنی تھے اللہ تعالیٰ نے حلم کے ساتھ ساتھ قوت برداشت سے نواز رکھا بڑے تعمل سے بات کا جواب دیتے چاہئے وہ بات ان کے مزاج پہ گراں ہی کیوں نہ گزری ہو فہم و فراست ان کو خدائی عطیہ تھی. سچائی کو مقدم جانتے تھے تعلق کو استوار رکھتے پیج و تاب سے ہمیشہ گریزاں رہتے محکوم کے حامی اور استبداد کے خلاف ڈٹ جاتے مرحوم صف شکن جان باز اور پردم تھے ان کا ظریفانہ مزاج ناقابل فراموش ہے وہ ممتاز حثیت کے حامل تھے ان کی نماز جنازہ کے مناظر بھی روح پرور تھے ایسے مردم خیز لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں.آزاد کشمیر کی سیاست میں جو مقام خالد ابراہیم خان مرحوم نے بنایا ہمیشہ اصولی سیاست کی ایسی شفاف سیاست کسی نے پہلے کی نا کوئی بعد میں کرے گا. سردار خالد ابراہیم خان اگرچہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے لیکن وہ ایک بااصول اور کھرے سیاستدان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

یہ ہمارا ملک ہے، یہ ہماری اسمبلی ہے، یہاں اگر ہم بات نہیں کریں گے تو پاکستان کا کوئی وزیراعظم یا صدر بھی بات نہیں کرے گا یہ وہ الفاظ تھے جن سے سردار خالد ابراہیم خانؒ نے کشمیری عوام کو احساسِ ملکیت، حقِ نمائندگی اور جمہوری وقار کا سبق دیا۔

مرحوم نہ صرف ایک سیاستدان تھے، بلکہ ایک تحریکی رہنما، آئینی محافظ، اور قومی ضمیر کی آواز تھے۔ وہ سیاست کو محض اقتدار کی سیڑھی نہیں بلکہ قومی خدمت، ادارہ سازی اور نسلِ نو کی رہنمائی کا ذریعہ سمجھتے تھےانہوں نے فرمایا ادارے مضبوط ہوں گے تو ایک عام آدمی کی عزت نفس کسی وزیر یا افسر کے سامنے مجروح نہیں ہو گی۔ وہ قانون سازی کو خدمت کا اصل میدان سمجھتے تھے، نہ کہ ٹوٹیاں اور سڑکیں بانٹنے کو مسئلہ کشمیر پر ان کا موقف صاف، غیر مبہم اور خوددارانہ تھا مسئلہ کشمیر کو ہم سے زیادہ پاکستان کے حکمران نہیں سمجھتے.کشمیر کے فیصلے کشمیر میں بیٹھ کر کشمیریوں کو کرنے چاہییں، نہ کہ لاڑکانہ، رائے ونڈ یا بنی گالہ میں یہی الفاظ ان کی سیاسی خودداری، جمہوری جرأت اور قومی غیرت کی دلیل ہیں۔ہم نے کیا کھو دیا؟ کیا یہ صرف ایک انسان کی کمی ہے، یا ایک روش، ایک راہ، ایک وہ جذبہ جس نے ہمیں ہمیشہ سچ کی راہ دکھائی؟سردار خالد ابراہیم خانؒ وہ نام جو آج دلوں میں ایک درد بن کر بستا ہے، ایک یاد جو کبھی مدھم نہیں پڑے گی۔

وہ باضمیر سیاستدان، اصول پرست رہنما، اور سچ کے علمبردار تھے۔ایسا انسان جو کبھی مصلحت کی چادر اوڑھ کر اپنی شناخت کو چھپانے والا نہیں تھا، بلکہ جس نے ہمیشہ آئین کا پرچم بلند رکھا،وہی جس نے اپنی زندگی کو خدمت اور دیانت سے سجایا۔وہ شخص جو نہ منصب کے لیے جھکا، نہ مراعات کے لیے بکا،جو اپنی سادگی میں عظمت کا پیام تھا۔

ایسا قائد جس کی بات سن کر دلوں میں اعتماد اور امن پیدا ہوتا تھا،جس کی نظروں میں عوام کی محبت جھلکتی تھی۔

آج ہم اس خالی جگہ کو محسوس کرتے ہیں،اس خاموشی کو سنتے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ ہم نے کیا کھو دیا؟ کیا ہم اس روش کو دوبارہ پا سکیں گے؟کیا ایسے قائد ہمیں دوبارہ ملیں گے؟یہ درد صرف ایک فرد کی جدائی کا نہیں، بلکہ اُس اصول پسندی کی جدائی کا ہے،جو سیاست کو عزت دیتی ہے، جو قوم کی خدمت کو سب سے بڑا فریضہ سمجھتی ہے۔آج کا زمانہ مفادات کی جنگ کا دور ہے، لیکن سردار خالد ابراہیم خانؒ کا نام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سیاست بھی انسانیت کا درجہ رکھتی ہے، اور عزت، دیانت اور سچائی کا کوئی نعم البدل نہیں۔ہم نے جو کھو دیا، وہ صرف ایک رہنما نہیں،بلکہ ایک مشعل راہ تھا جو ہمیں ظلمت میں روشنی دیتا تھا۔اس کی کمی صرف محسوس نہیں کی جاتی، بلکہ دلوں میں ایک خلا سا رہ گیا ہے۔ یہ خلا ہمیں چیلنج کرتا ہے کہ ہم اپنی سیاست اور اپنے رہنماؤں کو کیسے چنیں، اور اپنے مستقبل کو کس بنیاد پر تعمیر کریں۔یاد رکھیں، وہ لوگ جو اصول پر ڈٹے رہتے ہیں، جو مصلحت سے بالا تر ہو کر سچ کہتے ہیں،وہی قوموں کے لیے حقیقی رہبر ہوتے ہیں۔سردار خالد ابراہیم خانؒ ہمارے لیے ہمیشہ ایک مثال رہیں گے،ایک ایسا چراغ جو ہمیشہ ہمیں سچائی کی راہ دکھاتا رہے گا۔

ہم نے کیا کھو دیا؟ ایک عظیم انسان، ایک بے مثال رہنما، اور ایک سچے سیاستدان کو۔لیکن ان کی یاد ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم بھی اپنی زندگی میں سچائی اور اصولوں کو تھامے رکھیں۔

آج جب آزاد کشمیر میں وزیر اعظم کی کرسی کے لیے رسہ کشی جاری ہے کبھی سندھ ہاؤس کے دروازے پر ٹھوکریں کھا رہے ہیں، تو کبھی زرداری ہاؤس کی راہوں میں ٹھہرے ہیں۔ کہیں رائے ونڈ کے فیصلے کا انتظار ہے، کہیں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے حقوق کا سودا ہو رہا ہے۔یہ وہ منظر ہے جہاں سیاست نہیں، طاقت کی بازی چل رہی ہے، جہاں عوام کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ ایک کرسی کے لیے اپنی زمین، اپنی عزت، اپنی قوم کی محبت کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔اس رسہ کشی کے اندھیرے میں آج سردار خالد ابراہیم خان صاحب کے وہ الفاظ میرے دل کو چیر دیتے ہیں، جو ہر لمحہ میرے ذہن میں گونجتے ہیں جب ہم پاکستانی وزیراعظم کے سامنے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بنتے ہیں، تو حقیقت میں ہم نے اپنا حق حکمرانی کھو دیا ہوتا ہے۔ فیصلہ ہمارے اپنے مظفرآباد، میرپور یا راولاکوٹ میں ہونا چاہیے۔یہ الفاظ صرف ایک بیان نہیں، بلکہ درد ہے، ایک جدوجہد کا نعرہ ہیں جو آج بھی آزاد کشمیر کے ہر نوجوان کی آواز ہے۔ جب تک ہماری اپنی زمین پر ہماری حکومت نہیں ہوگی، تب تک ہمارے خواب ادھورے رہیں گے، ہمارے جذبے ماند پڑ جائیں گے۔ یہ وہ غم ہے جو سردار خالد صاحب نے سچائی کی شمع جلاتے ہوئے محسوس کیا، وہ جو ہر آنکھ میں سچائی اور جذبہ کی چمک چھوڑ گئے۔ آج اس درویش صفت قائد کا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہو رہا ہے

آج بھی ہم ان کی بات کو دہراتے ہیں پہلے ریاست، پھر سیاست کیونکہ جب تک ہم اپنے فیصلے خود نہیں کریں گے، ہماری آزادی اور عزت کا سفر نامکمل رہے گا۔سردار خالد صاحب کی سوچ آج ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے، اور ان کے دیے ہوئے پیغام کو ہم دل و جان سے قبول کرتے ہیں۔ ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں، ان کے خوابوں کو پورا کریں.

آپ کل بھی مشعل راہ تھے اور آنے والے کل بھی راہبر و راہنما.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Whatsupp